Saturday, 11 February 2017

STAGES OF CIVIL SUIT

STAGES OF CIVIL SUIT
Normally a civil suit has to travel through 17 main stages from institution of the suit till its judgment, they are as under :-
1)
Institution of Suit
Order 4, 6 and 7
2
Issue of Summons
Order 5
3
Filing of Written Statement
Order 8
30
4
Examination of Parties
Order 10
10
5
Settlement of Despute
Section 89
6
Discovery & Inspection
Order 11
7
Admission
Order 12
8
Production of Documents
Order 13
9
Framing of Issues
Order 14
10
List of Witness
Order 16
11
Summons to Witnesses
Order 16 R 1 (4)
12
Settling Date
Order 16
13
Evidence of Parties
Order 18 R 4
r/w Order 17
----
14
Exhibiting of Documents
Order 18 R 4 (1)
Proviso
07
15
Cross-exam by parties
Order 18 R 4 (2)
----
16
Arguments
Order 18 R 2 (3A)
----
17
Judgment
Order 20
Out of these 17 main stages the amended code does not speak about any time limit for Examination of Parties - Order 10, Settlement of Disputes - Section 89, Production of Documents - Order 13, Exhibiting of Documents - Order 18 R 4 (1) proviso and Arguments - Order 18 R 2 (3A), but in the rest of the provisions the amended code has given time limits in the provisions itself and we cannot ignore them so easily and without any rare and exceptional circumstances.
Now once a party has filed the suit then he has to comply all the provisions one by one within the stipulated time. If the table shown as above is effectively implemented then no prejudice is likely to be caused to either of the parties and it will be a milestone in disposing off the civil suit in a stipulated time and that too within the framework of law, respecting the intention of the legislature. Now it is for us to decide whether to follow the provisions or the practice while interpreting and implementing the provisions of amended code.
In the amended code most of the provisions contains time limits for a particular stage. Maximum of the provisions are mandatory in nature and in very few of them the discretion lies with the court.
1. Plaintiff has to file the plaint complying the provisions in all respect as contemplated under Order 4 r/w Order 6 and 7 of the code.
2. Plaintiff has to issue summons within 30 days from the institution of suit.
3. After the service of summons defendant has to file his written statement within 30 days from the receipt of summons as per Order 8 R 1 of the code
4. No further time exceeding 90 days after date of service of summons be extended for filing written statement as per proviso to Order 8 R 1 of the code.
5. Within 10 days from the filing of written statement court has to examine the parties so as to explore the possibilities of compromise in between the parties and to refer the matter of settlement under section 89 of the code.
6. If parties fail to compromise the matter then court has to keep the matter for discovery and inspection within the time span of 7 – 10 – 10 – 3 days, as per Order 11 of the code.
7. Then to adjourn the matter for admission within the time span of 15 days as per Order 12 of the code.
8. Then parties have to file the original documents prior to framing of issues within the time span of 7 days, as per Order 13 of the code.
9. Court has to frame the issues within 15 days as per Order 14 of the code.
10. Parties have to file the list of witnesses within 15 days from the date of framing of issues as per Order 16 of the code.
11. Plaintiff has to issue summons to the witnesses either for adducing evidence or for production of documents within 5 days of filing of list as per Order 16 R 1 (4) of the code.
12. Parties have to settle the date of evidence as per Order 16 of the code.
13. Plaintiff has to file the affidavits of all his witnesses within 3 adjournments as per Order 18 R 4 r/w Order 17 of the code.
14. Court has to exhibit the documents considering their proof and admissibility with a reasoned order as per proviso to Order 18 R 4 (1) of the code.
15. Cross examination of the plaintiff and his witnesses on day to day until all the witnesses in attendance have been examined as per Order 18 R 4 (2) r/w Order 17 R 2 (a) of the code.
16. Defendant has to issue summons to the witnesses either for adducing evidence or for production of documents as per Order 16 R 1 (4) of the code.
17. Defendant has to file the affidavits of all his witnesses within 3 adjournments as per Order 18 R 4 r/w Order 17 of the code.
18. Court has to exhibit the documents considering their proof and admissibility with a reasoned order as per proviso to Order 18 R 4 (1) of the code.
19. Cross examination of the defendant and his witnesses on day to day until all the witnesses in attendance have been examined as per Order 18 R 4 (2) r/w Order 17 R 2 (a) of the code.
20. Parties have to conclude their arguments within 15 days from the completion of their respective evidence as per Order 18 R 2 (3A) of the code.
21. Court has to delivered judgment forthwith or on or before 30 days and not exceeding 60 days from the date of conclusion of the arguments as per Order 20 R 1 of the code.

ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺗﮭﯽ

                                                                                                 ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺗﮭﯽ .
ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 2500 ﻣﯿﻞ ﮐﮯ ﺳﮍﮎ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ .
ﺍﺱ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ :
ﺑﮭﺎﺋﯽ، ﺁﭖ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮨﻮ . ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ، ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﺮﻭﮞ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﮐﺴﺎﻥ ﺑﻮﻻ : ﺻﺎﺣﺐ، ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ 200 ﺑﯿﻞ ﮨﯿﮟ . ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﺭﮦ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﯿﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﺎﻗﯽ 19 ﺑﯿﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻞ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ؟
ﮐﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﻠﯿﭧ ﻓﺎﺭﻡ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯿﻠﯿﮯ 2 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯽ .
 ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﺑﻮﻟﮯ : ﺑﮭﺎﺋﯽ، ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺋﯽ . ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯿﺴﯽ ﻟﮕﯽ ؟
ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﺻﺎﺣﺐ، 19 ﺑﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﯿﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﻣﯿﮟ 200 ﺑﯿﻞ ﮐﺎ ﭼﺎﺭﮦ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﯿﻞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ،
 ﺍﺗﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﮯ . ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ؟؟؟؟

#_اصحابِ_کہف_کون_تھے

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ”دقیانوس”تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا یہ اُس کو قتل کرڈالتا تھا۔
 اصحابِ کہف کون تھے؟:۔اصحابِ کہف شہر ”اُفسوس”کے شرفاء تھے جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے۔ مگر یہ لوگ صاحب ِ ایمان اور بت پرستی سے انتہائی بیزار تھے۔ ”دقیانوس”کے ظلم و جبر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اُس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تو تین سو برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے۔ دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اُس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بے حد ناراض ہوا۔ اور فرط غیظ و غضب میں یہ حکم دے دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار اُٹھا کر بند کردیا جائے تاکہ یہ لوگ اُسی میں رہ کر مرجائیں اور وہی غار ان لوگوں کی قبر بن جائے۔ مگر دقیانوس نے جس شخص کے سپرد یہ کام کیا تھا وہ بہت ہی نیک دل اور صاحب ِ ایمان آدمی تھا۔ اُس نے اصحاب ِکہف کے نام اُن کی تعداد اور اُن کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا۔ اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرادی۔ کچھ دنوں کے بعد دقیانوس بادشاہ مر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام ”بیدروس” تھا، تخت نشین ہوا جس نے اڑسٹھ سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اُس کے دور میں مذہبی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اُٹھنے اور قیامت کا انکار کرنے لگے۔ قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ رنج و غم میں ڈوب گیا اور وہ تنہائی میں ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری کر کے دعائیں مانگنے لگا کہ یا اللہ عزوجل کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تاکہ لوگوں کو مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنے اور قیامت کا یقین ہوجائے۔ بادشاہ کی یہ دعا مقبول ہو گئی اور اچانک بکریوں کے ایک چرواہے نے اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لئے اسی غار کو منتخب کیا اور دیوار کو گرا دیا۔ دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت و دہشت سوار ہو گئی کہ دیوار گرانے والے لرزہ براندام ہو کر وہاں سے بھاگ گئے اور اصحابِ کہف بحکم الٰہی اپنی نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے سلام و کلام میں مشغول ہو گئے اور نماز بھی ادا کرلی۔ جب ان لوگوں کو بھوک لگی تو ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی یملیخاسے کہا کہ تم بازار جا کر کچھ کھانا لاؤ اور نہایت خاموشی سے یہ بھی معلوم کرو کہ ”دقیانوس”ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟ ”یملیخا”غار سے نکل کر بازار گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے اور لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔یملیخا یہ منظر دیکھ کر محو حیرت ہو گئے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟کہ اس شہر میں تو ایمان واسلام کا نام لینا بھی جرم تھا آج یہ انقلاب کہاں سے اورکیونکر آگیا؟
 پھر یہ ایک نانبائی کی دکان پر کھانا لینے گئے اور دقیانوسی زمانے کا روپیہ دکاندار کو دیا جس کا چلن بند ہوچکا تھا بلکہ کوئی اس سکہ کا دیکھنے والا بھی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے چنانچہ دکاندار نے ان کو حکام کے سپرد کردیا اور حکام نے ان سے خزانے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی اور کہا کہ بتاؤ خزانہ کہاں ہے؟ ”یملیخا” نے کہا کہ کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ ہمارا ہی روپیہ ہے۔ حکام نے کہا کہ ہم کس طرح مان لیں کہ روپیہ تمہارا ہے؟ یہ سکہ تین سو برس پرانا ہے اور برسوں گزر گئے کہ اس سکہ کا چلن بند ہو گیا اور تم ابھی جوان ہو۔ لہٰذا صاف صاف بتاؤ کہ عقدہ حل ہوجائے۔ یہ سن کریملیخا نے کہا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حکام نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ہاں سینکڑوں برس گزرے کہ اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ گزرا ہے جو بت پرست تھا۔ ”یملیخا” نے کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم لوگ اس کے خوف سے اپنے ایمان اور جان کو بچا کر بھاگے ہیں۔ میرے ساتھی قریب ہی کے ایک غار میں موجود ہیں۔ تم لوگ میرے ساتھ چلو میں تم لوگوں کو اُن سے ملادوں۔ چنانچہ حکام اور عمائدین شہر کثیر تعداد میں اُس غار کے پاس پہنچے۔ اصحاب ِ کہف ”یملیخا” کے انتظار میں تھے۔ جب ان کی واپسی میں دیر ہوئی تو اُن لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ شاید یملیخا گرفتار ہو گئے اور جب غار کے منہ پر بہت سے آدمیوں کا شور و غوغا ان لوگوں نے سنا تو سمجھ بیٹھے کہ غالباً دقیانوس کی فوج ہماری گرفتاری کے لئے آن پہنچی ہے۔ تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ ذکر ِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے۔
 حکام نے غار پر پہنچ کر تانبے کا صندوق برآمد کیا اور اس کے اندر سے تختی نکال کر پڑھا تو اُس تختی پر اصحاب ِ کہف کا نام لکھا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ مومنوں کی جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس بادشاہ کے خوف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے۔ تو دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے ان لوگوں کو غار میں بند کردیا ہے۔ ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہ غار کھلے تو لوگ اصحاب ِ کہف کے حال پر مطلع ہوجائیں۔ حکام تختی کی عبارت پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اور ان لوگوں نے اپنے بادشاہ ”بیدروس” کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ فوراً ہی بید روس بادشاہ اپنے امراء اور عمائدین شہر کو ساتھ لے کر غار کے پاس پہنچا تو اصحاب ِ کہف نے غار سے نکل کر بادشاہ سے معانقہ کیا اور اپنی سرگزشت بیان کی۔ بیدروس بادشاہ سجدہ میں گر کر خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے لگا کہ میری دعا قبول ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانی ظاہر کردی جس سے موت کے بعد زندہ ہو کر اُٹھنے کا ہر شخص کو یقین ہو گیا۔ اصحاب ِ کہف بادشاہ کو دعائیں دینے لگے کہ اللہ تعالیٰ تیری بادشاہی کی حفاظت فرمائے۔ اب ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ پھر اصحاب ِ کہف نے السلام علیکم کہا اور غار کے اندر چلے گئے اور سو گئے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وفات دے دی۔ بادشاہ بیدروس نے سال کی لکڑی کا صندوق بنوا کر اصحابِ کہف کی مقدس لاشوں کو اس میں رکھوا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب ِ کہف کا ایسا رعب لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیا کہ کسی کی یہ مجال نہیں کہ غار کے منہ تک جا سکے۔ اس طرح اصحاب ِ کہف کی لاشوں کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے سامان کردیا۔ پھر بیدروس بادشاہ نے غار کے منہ پر ایک مسجد بنوا دی اور سالانہ ایک دن مقرر کردیا کہ تمام شہر والے اس دن عید کی طرح زیارت کے لئے آیا کریں۔ (خازن، ج۳،ص۱۹۸۔۲۰۰)
اصحاب ِکہف کی تعداد:۔اصحابِ کہف کی تعداد میں جب لوگوں کا اختلاف ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ :۔
قُل رَّبِّیۡۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیۡلٌ (پ15،الکہف:22)
ترجمہ کنزالایمان:۔ تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتاہے انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے۔
 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں انہی کم لوگوں میں سے ہوں جو اصحابِ کہف کی تعداد کو جانتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اصحاب ِ کہف کی تعداد سات ہے اور آٹھوں اُن کا کتا ہے۔
(تفسیرصاوی، ج ۴ ،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کا حال بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔ ؕاَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿9﴾اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَہۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحْمَۃً وَّہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا ﴿10﴾فَضَرَبْنَا عَلٰۤی اٰذَانِہِمْ فِی الْکَہۡفِ سِنِیۡنَ عَدَدًا ﴿ۙ11﴾ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیۡنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ﴿٪12﴾نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالْحَقِّ ؕ اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًی ﴿٭ۖ13﴾ (پ15،الکہف:9۔13)
 ترجمہ کنزالایمان:۔کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کے سامان کر تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا پھر ہم نے انہیں جگایا کہ دیکھیں دو گرہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں وہ کچھ جو ان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی۔
 اس سے اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب ِ کہف کا پورا پورا حال بیان فرمایا ہے کہ جس کو ہم پہلے ہی تحریر کر چکے ہیں۔
 اصحابِ کہف کے نام:۔ان کے ناموں میں بھی بہت اختلاف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُن کے نام یہ ہیں۔ یملیخا، مکشلینا، مشلینا، مرنوش، دبرنوش، شاذنوش اور ساتواں چرواہا تھا جو ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُس کا ذکر نہیں فرمایا۔ اور ان لوگوں کے کتے کا نام” قطمیر ”تھا اور ان لوگوں کے شہر کا نام ”افسوس”تھا اور ظالم بادشاہ کا نام ”دقیانوس”تھا۔
(مدارک التنزیل ،ج ۳، ص ۲۰۶،پ۱۵،الکہف:۲۲)
اور تفسیر صاوی میں لکھا ہے کہ اصحاب ِ کہف کے نام یہ ہیں۔ مکسملینا، یملیخا، طونس، نینوس، ساریونس، ذونوانس، فلستطیونس۔ یہ آخری چرواہے تھے جو راستے میں ساتھ ہو لئے تھے اور ان لوگوں کے کتے کا نام ”قطمیر” تھا۔
(صاوی، ج۴،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲ )
 اصحابِ کہف کے ناموں کے خواص:۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اصحاب ِ کہف کے ناموں کا تعویذ نو کاموں کے لئے فائدہ مند ہے:۔
(۱)بھاگے ہوئے کو بلانے کے لئے اور دشمنوں سے بچ کر بھاگنے کے لئے۔(۲۲) آگ بجھانے کے لئے کپڑے پر لکھ کر آگ میں ڈال دیں (۳)بچوں کے رونے اور تیسرے دن آنے والے بخار کے لئے۔(۴) درد سر کے لئے دائیں بازو پر باندھیں۔(۵)اُمّ الصبیان کے لئے گلے میں پہنائیں ۔(۶)خشکی اور سمندر میں سفر محفوظ ہونے کے لئے۔ (۷)مال کی حفاظت کے لیے۔ (۸)عقل بڑھنے کے لئے ۔(۹)گنہگاروں کی نجات کے لیے
(صاوی،ج۴،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲ )
اصحابِ کہف کتنے دنوں تک سوتے رہے:۔جب قرآن کی آیت
وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾ (پ۱۵،الکھف:۲۵)
 (اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نواوپر)نازل ہوئی۔ تو کفار کہنے لگے کہ ہم تین سو برس کے متعلق تو جانتے ہیں کہ اصحاب ِ کہف اتنی مدت تک غار میں رہے مگر ہم نو برس کو نہیں جانتے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ شمسی سال جوڑ رہے ہو اور قرآن مجید نے قمری سال کے حساب سے مدت بیان کی ہے اور شمسی سال کے ہر سو برس میں تین سال قمری بڑھ جاتے ہیں۔
(صاوی،ج۴،ص۱۱۹۳،پ۱۵،الکہف:۲۵.
اسے دوستوں کےساتھ شیئر کرکےثواب کے حقدار بنیئےاور لوگوں کو اچھائی کی طرف لائیں اور اُن میں اسلام کا شعور اجاگر کریں آپکی وجہ سےاگر کسی نےگناہوں سےتوبہ کی اور نیکی کرنے والا بن گیا تو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔

IMPORTANT JUDGMENTS Family laws...

IMPORTANT JUDGMENTS Family laws...
Divorce - If a spouse abuses the other as being born from a prostitute, this cannot be termed as `wear and tear' of family life as it amounts to cruelty and a ground for divorce. (2015(3) Civil Court Cases 104 (S.C.)
Divorce - Re-conciliation - It is duty of family Court to make endeavour for reconciliation - However, failure to make such endeavour will not ipso facto vitiate a decree. (2015(3) Civil Court Cases 192 (Patna)
Divorce by mutual consent - Wife residing abroad, represented through special power of Attorney, her mother - Wife filed affidavit confirming contents of petition - No suspicious circumstances in affidavit - Personal attendance not required - Divorce granted. (2015(3) Civil Court Cases 853 (A.P.)
Documents not produced alongwith written statement can be allowed to be produced at a later stage when those documents are necessary for adjudication of rival claims of parties. (2015(3) Civil Court Cases 429 (P&H)
Domestic Violence - Interim order - A relief which could be granted at the final stage cannot normally be granted as an interim measure. (2015(3) Civil Court Cases 548 (Kerala) (DB)
Domestic Violence - Law is being used to terrorize husband, his family and distant relatives and this phenomenon has now acquired the name of `Legal Terrorism' and rightly so given the extent of its misuse, particularly against distant relatives of husband. (2015(3) Civil Court Cases 268 (P&H)
Domestic Violence - Protection order - Violation - Anticipatory bail - Passing a general or vague order result in unfortunate consequences - Anticipatory bail granted. (2015(3) Civil Court Cases 840 (Kerala)
Electricity - Claim for surcharge - Demand of surcharge beyond period of three years is barred by law of limitation - However, claim of surcharge within period of three years of its claim is not barred. (2015(3) Civil Court Cases 315 (Gauhati)
Enhancement of maintenance - Can be either from date of application for from date of order. (2015(3) Civil Court Cases 863 (Rajasthan)
Ex parte ad interim injunction - Restraining interfering with lawful construction - Not such a exigency that ex parte injunction without issuing notice to the opposite party can be granted. (2015(3) Civil Court Cases 380 (A.P.) (DB)
Ex parte decree - Condonation of delay - Court can direct payment of a portion of the decretal amount or the cost, while setting aside ex parte decree or condoning delay. (2015(3) Civil Court Cases 142 (S.C.)
Ex parte decree - Setting aside - Advocate had gone to Bihar to attend to his ailing brother - Lack of proper details and supporting evidence - Application dismissed. (2015(3) Civil Court Cases 323 (Delhi) (DB)
Ex parte injunction order - Violation - It is always in the larger interest of parties to the Lis to get the main case decided first on its merits as far as possible rather than to pursue their off-shoot proceedings. (2015(3) Civil Court Cases 598 (S.C.)
Extension of time - Can only be when period for doing an act is fixed or granted by Court and not when period is fixed by a provision of CPC or by any other law. (2015(3) Civil Court Cases 659 (J&K)
Extension of time - Earlier remedy sought in Consumer Forum which did not lack jurisdiction - As remedy sought earlier was not in a wrong forum as such S.14 of Limitation Act is not applicable. (2015(3) Civil Court Cases 460 (P&H)
Guardian - Appointment - An unwed mother can be appointed as guardian of minor child without issuing notice to putative father. (2015(3) Civil Court Cases 698 (S.C.)
Hire purchase agreement - By itself does not amount to sale of property - An agreement of hire purchase cannot be said to be a sale deed. (2015(3) Civil Court Cases 515 (Allahabad)
Insufficiently stamped document - Both original and secondary evidence excluded - No other evidence to prove terms of instrument is also excluded u/s 91 Evidence Act. (2015(3) Civil Court Cases 014 (All.)
Interest - Agreed to be paid 2% per month - Exorbitant - Interested reduced to 9% p.a. (2015(3) Civil Court Cases 798 (Rajasthan)

Muhammad Haseeb

قنون کی باتیں ... سامان جہیز .. کچھ ضروری باتیں

قنون کی باتیں ... سامان جہیز .. کچھ ضروری باتیں ..عام طور پر لوگ اپنی بیٹیوں کو انکی شادی پر لاکھوں کا سامان جہیز دیتے ہے مگر ااگر بعد مے طلاق یا جھگڑا ہو جائے تو وہ جہیز کے حصول کا جب کیس کرتے ہے تو اکثر لڑکے والے کورٹ مے جہیز سے مکر جاتے ہے ..سو ایسی صورت میں جہیز ثابت کرنا بڑا مسلا بن جاتا ہے ..سو یہ چاہے کے جب بیٹی کو رخصت کرے تو کوشش کرے کے سامان جہیز کی فهرست پر لڑکے والو ن کےدستخط کروا لیے جائیں ..یہ ممکن نہ ہو تو کسی موبائل سے سامان جہیز جانے کی ویڈیو بنا لی جائے .. اسی طرح یہ بھی دیکھنے مے آیا ہے کے طلاق وغیرہ کی صورت مے کچھ لڑکے والے پنچایتی طور پی خود ہی سامان جہیز لڑکی والوں کو دے دیتے ہے ..اس بابت یا تو لڑکی والو سے کوئی سامان وصول کرنے کی کوئی تحریر لیتے ہی نہی یا پھر لڑکی کے بھایوں وغیرہ سے رسید لے لیتے ہیں ..یہ بھی ٹھیک نہی ..سال 2006 اور سال 2016 میں سپریم کورٹ نے بھایوں کے سامان جہیز وصولی کی رسید کے باوجود خاتون کا سامان جہیز کا کیس ڈگری کر دیا اورقرار دیا کے بھایوں کے پاس سامان وصول کرنے کا بہن کی طرف سے کوئی اختیار نہی تھا ..سو لڑکے والو کو بھی چاہے کے اگر وہ سامان جہیز دینا بھی چاہتے ہیں تو پنچایتی طور پی ہر گز نہ دے ..بلکے لڑکی والوں سے کہیں کہ وہ فیملی کورٹ مے سامان جہیز کی وصولی کا کیس کریں ..پھر اس کیس مے راضی نامہ کی درخواست دے کر بذریہ کورٹ سامان لڑکی والوں کے حوالے کرے اور اس بابت لڑکی کا بیان کورٹ میں کروایں ...جس کی تصدیق اس کا وکیل کرے گا .اس طرح لڑکے والے بھی مستقبل میں محفوظ ہونگے

Facebook ID was Hacked ....FIR lodged

Facebook ID was Hacked ....FIR lodged Under Section 36/37 Electronic Transactions Ordinance, 2002 Read With Section 420 of Pakistan Penal Code ...Accused Bail Refused.
Citation Name: 2016 PCrLJ Page 1916
(November Journal)
S. 497---Electronic Transactions Ordinance (LI of 2002),
Ss. 36 & 37---Penal Code (XLV of 1860), Ss. 420 & 109
Hacking social media account belonging to someone else and abusing personal information---Bail, refusal of---Accused was nominated in the FIR and had been ascribed with a specific role of hacking facebook ID of the complainant and misusing the same for uploading her personal pictures on internet without her permission---During the course of investigation, accused had been found guilty of the offence alleged against him---Offence alleged against the accused was heinous in nature as it ruined the entire life of the victim as being disgraced in the eyes of general public and her family---Sufficient evidence was available on record which was not only threatening but obnoxious and filthy in nature and prima facie connected the accused with the commission of the alleged offence--- High Court observed that such offences damaged the fibre of the society and were liable to be curbed very strongly by the law enforcing agencies---Accused was refused bail accordingly.


Some Important Documents of Criminal Case File:

Some Important Documents of Criminal Case File:
1. "FARAD BAYAN"
It is statement recorded by police officer for registration of FIR. Complainant records his statement to police who writes it and reads over to complainant and then it is signed or thumb marked by the complainant.FIR is exact duplication of farad bayan. 
This is exhibited during examination in chief of Complainant.
2. FIR (FIRST INFORMATION REPORT )
It is registered under section 154 CrPC.
It is registered when any cognizable offence is committed.
It must be read over to complainant if informant gives oral statement.
It must be signed/thumb marked by complainant.
Any one can lodge FIR who has information of crime. This is fundamental document on basis of which criminal machinery comes into motion. However during trial content of FIR must be proved by evidence. It is not substantive piece of evidence.
3. NAKSHA MOOKA
It is site plan of place of occurrence prepared by investigating officer and it describes important landmarks of crime scene and presence of witnesses and accused.It is unscaled.
In henious offences it is prepared by patwari or naksha nawees which is scaled site plan.
4. ZIMNIES
Are proceedings of police case diaries prepared under section 172 CrPC.
5. FARAD MAKBOOZGEE
It is recovery memo.
Anything found at crime scene or recovered at instance of disclosure of accused is to be taken into possession in presence of witnesses and record of these proceedings
is called recovery memo.
Fard makboozgee must describe FIR No, offence, police station, description of property, place where property was found and name and signature of attesting witnesses.
Section 103 CrPC describes procedure for recovery at instance of accused. However S. 103 CrPC is not applicable to Narcotics.
This is not exhaustive list but is description of few docouments.

Talaq ka ail important aspect..

کورٹ کی طرف سے تنسیخ نکاح کی ڈگری کی حثیت صرف ایک طلاق کی ھوتی ھے. لہذا ایک طلاق کے بعد شوہر کے پاس رجوع کرنے کا شرعی حق موجود ھے .اس لیے ایک طلاق ھونے کی صورت میں حلالہ کی ضرورت شرعی نقطہ نظر سے نہی ھوتی ھے.بشرطیکہ 90 دن یعنی تین طہر نہ گزرنے پاے ھوں. 
حلالہ کی ضرورت تین طلاق یعنی طلاق ثلاثہ کے بعد پیش آتی ھے.