Attention Plz is a platform to learn Blogging, Articles Writing, following proven SEO tips along with exciting Articles on Online money making and Digital Marketing and everything which is new in Market.
Saturday, 11 February 2017
Shah Faisal in Britain
یہ بھی پڑھیں
ایک سرکاری دورے پر سعوری عرب شاہ فیصل (شہید) برطانیہ تشریف لے گے۔ کھانے کی میز پر انتہائی نفیس برتنوں کے ساتھ چمچے اور کانٹے بھی رکھے ہوئے تھے۔ دعوت شروع ہوئی۔سب لوگوں نے چمچے اور کانٹے استعمال کیے لیکن شاہ فیصل نے سنتِ نبوی کے مطابق ہاتھ ہی سے کھانا کھایا۔ کھانا ختم ہوا تو کچھ صحافیوں نے شاہ فیصل سے چمچہ استعمال نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔
شاہ فیصل نے کہا:” میں اس چیز کا استعمال کیوں کروں جو آج میرے منھ میں ہے اور کل کسی منھ میں جائیں گا۔ یہ ہاتھ کی اُنگلیاں تو میری اپنی ہیں۔ یہ تو ہمیشہ میرے ہی منھ میں جائیں گی اس لیے میں اپنے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔“
ایک دفعہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب دورے پر آیا۔وہ وہاں ایک ہفتہ ٹھیرا۔ اس دوران وفد کے ارکان نے سعودی عرب میں امن و امان کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا۔ انھوں نے اس چیز کو شدت سے محسوس کیا کہ سعودی عرب میں چوری کرنے والے کے ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ انھیں لگا یہ سزا سراسر زیادتی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وفد کو یہ بھی معلوم ہو اکہ دورے جرائم میں مجرموں کو سرِ عام کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ امریکا میں توا یسی سزاوں کا تصور بھی نہیں تھا۔
وفد کی ملاقات شاہ فیصل سے بھی طے تھی۔ ملاقات کے دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے ان سزاوں کا ذکر کیا کہ اتنی سخت سزائیں آپ نے کیوں نافذ کر رکھی ہیں۔یہ تو سراسر اانسانی حقوق کے خلاف ہے۔
صحافی کے اس چبھتے سوال سے شاہ فیصل کے چہرے پر کوئی شگن دیکھنے میں نہ آئی ، بلکہ انھوں نے اس صحافی کی بات کو تحمل سے سنا۔جب وہ صحافی اپنی بات مکمل کر چکا تو شاہ فیصل چند سیکنڈ خاموش رہے۔ صحافی یہ سمجھا کہ اس نے شاہ فیصل کو لا جواب کر دیا ہے۔ کچھ دیر رُک کر شاہ فیصل بولے، ” کیا آپ لوگ اپنی بیگمات کو بھی ساتھ لے کر آئے ہوئے ہیں؟“ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلائے۔
اس کے بعد شاہ فیصل نے کہا” ابھی آپ کا دورہ ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ آپ اپنی بیگمات کے ساتھ شہر کی سونے کی مارکیٹ میں چلے جائیں اور اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات کی خریداری کریں۔ ان سب زیورات کی قیمت میں اپنی جیب سے اداکروں گا۔ اس کے بعد وہ زیورات پہن کر آپ سعودی عرب کے بازاروں اور گلیوں میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ ان زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھ نہیں پائے گا۔ دو دن کے بعد آپ کی امریکہ واپسی ہوگی۔ کیا وہ زیورات پہنے ہوئے آپ اور آپ کی خواتین بلاخوف وخطر اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے؟“
جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے یہ پوچھا تو سارے صحافی ایک دوسرے کا ہونقوں کی طرح منھ تکنے لگے۔
شاہ فیصل نے دوبارہ پوچھا تو چند صحافیوں نے کہا” بلا خوف وخطر ائیرپورٹ سے نکل کر گھر پہنچنا تو درکنار ہم ائیرپورٹ سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔“
شاہ فیصل نے جواب دیا۔” سعودی عرب میں اتنی سخت سزاوں کا نفاذ ہی آپ کی پریشانی کا جواب ہے۔ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔
ایک سرکاری دورے پر سعوری عرب شاہ فیصل (شہید) برطانیہ تشریف لے گے۔ کھانے کی میز پر انتہائی نفیس برتنوں کے ساتھ چمچے اور کانٹے بھی رکھے ہوئے تھے۔ دعوت شروع ہوئی۔سب لوگوں نے چمچے اور کانٹے استعمال کیے لیکن شاہ فیصل نے سنتِ نبوی کے مطابق ہاتھ ہی سے کھانا کھایا۔ کھانا ختم ہوا تو کچھ صحافیوں نے شاہ فیصل سے چمچہ استعمال نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔
شاہ فیصل نے کہا:” میں اس چیز کا استعمال کیوں کروں جو آج میرے منھ میں ہے اور کل کسی منھ میں جائیں گا۔ یہ ہاتھ کی اُنگلیاں تو میری اپنی ہیں۔ یہ تو ہمیشہ میرے ہی منھ میں جائیں گی اس لیے میں اپنے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔“
ایک دفعہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب دورے پر آیا۔وہ وہاں ایک ہفتہ ٹھیرا۔ اس دوران وفد کے ارکان نے سعودی عرب میں امن و امان کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا۔ انھوں نے اس چیز کو شدت سے محسوس کیا کہ سعودی عرب میں چوری کرنے والے کے ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ انھیں لگا یہ سزا سراسر زیادتی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وفد کو یہ بھی معلوم ہو اکہ دورے جرائم میں مجرموں کو سرِ عام کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ امریکا میں توا یسی سزاوں کا تصور بھی نہیں تھا۔
وفد کی ملاقات شاہ فیصل سے بھی طے تھی۔ ملاقات کے دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے ان سزاوں کا ذکر کیا کہ اتنی سخت سزائیں آپ نے کیوں نافذ کر رکھی ہیں۔یہ تو سراسر اانسانی حقوق کے خلاف ہے۔
صحافی کے اس چبھتے سوال سے شاہ فیصل کے چہرے پر کوئی شگن دیکھنے میں نہ آئی ، بلکہ انھوں نے اس صحافی کی بات کو تحمل سے سنا۔جب وہ صحافی اپنی بات مکمل کر چکا تو شاہ فیصل چند سیکنڈ خاموش رہے۔ صحافی یہ سمجھا کہ اس نے شاہ فیصل کو لا جواب کر دیا ہے۔ کچھ دیر رُک کر شاہ فیصل بولے، ” کیا آپ لوگ اپنی بیگمات کو بھی ساتھ لے کر آئے ہوئے ہیں؟“ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلائے۔
اس کے بعد شاہ فیصل نے کہا” ابھی آپ کا دورہ ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ آپ اپنی بیگمات کے ساتھ شہر کی سونے کی مارکیٹ میں چلے جائیں اور اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات کی خریداری کریں۔ ان سب زیورات کی قیمت میں اپنی جیب سے اداکروں گا۔ اس کے بعد وہ زیورات پہن کر آپ سعودی عرب کے بازاروں اور گلیوں میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ ان زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھ نہیں پائے گا۔ دو دن کے بعد آپ کی امریکہ واپسی ہوگی۔ کیا وہ زیورات پہنے ہوئے آپ اور آپ کی خواتین بلاخوف وخطر اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے؟“
جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے یہ پوچھا تو سارے صحافی ایک دوسرے کا ہونقوں کی طرح منھ تکنے لگے۔
شاہ فیصل نے دوبارہ پوچھا تو چند صحافیوں نے کہا” بلا خوف وخطر ائیرپورٹ سے نکل کر گھر پہنچنا تو درکنار ہم ائیرپورٹ سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔“
شاہ فیصل نے جواب دیا۔” سعودی عرب میں اتنی سخت سزاوں کا نفاذ ہی آپ کی پریشانی کا جواب ہے۔ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔
Naseeb
بابا جی کونے میں خاموش بیٹھے , آنکھوں میں آنسووں کا ایک سیلاب لئے ہوۓ تھے - میری دوستی کو کئی سال ہو گئے ہیں ان سے - میں نے کبھی اس طرح پریشانی میں انہیں نہیں دیکھا -
" کیا ہوا بابا جی "
میں نے از راہ ہمدردی پوچھا -
" نقصان ہو گیا بیٹا "
بابا جی کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹنے والی تھی - ایک کڑاہی , ایک چولہا , تھوڑا سا تیل اور تھوڑا سا پکوڑوں کا سامان - کیا نقصان ھوا ہو گا - مگر میں نے ضبط کرنا ہی مناسب جانا -
" پوری زندگی کی محنت بے سود ہو گئی بیٹا - نہ جیب بھری نہ جھولی - کام دھندھے کا گر ہی سمجھ نہیں آیا -
محنت محنت محنت , سب بے سود - کاروبار سمجھ بھی آیا تو اس عمر میں , جب زندگی کی ناؤ نے ہچکولے کھانے شروع کر دیے ہیں "
بابا جی کی باتیں اکثر میرے سر سے گزر جاتی ہیں - آج بھی ایسا ہی تھا-
"اتنا اچھا کاروبار تھا , ایک لگاؤ ستر کماؤ - یہاں بھی وہاں بھی - نقصان کا فکر نہ غم - یار کسی نے بتایا ہی نہیں - پکوڑے بنانے میں ہی عمر گزار دی میں نے "
" آج کون مسیحا آ گیا آپ کے پاس "
میں نے از راہ مذاق پوچھا -
" وہ سامنے دیکھ رہے ہو "
بابا جی نے سامنے بیٹھے خستہ حال فقیر کی طرف اشارہ کیا -
" ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ میرے پاس آیا - بھوکا تھا , میں نے اپنی روٹی دے دی - کہنے لگا - یار بانٹ کے کھانے میں برکت بھی ہے مزہ بھی - تھوڑی خود کھائی , تھوڑی مجھے دی , تھوڑی پرندوں کو ڈال دی - جاتے ہوۓ کہنے لگا - کاروبار کرو تو الله سے , اسکے نام پہ دو اور بے فکر ہو جاؤ - ستر گنا کا وعدہ ہے , بے شمار دینا اس کی شان ہے - دنیا چاہو دنیا لے لو , آخرت چاہو آخرت کا سودا کر لو "
جب سے میری سمجھ میں نہیں آ رہا , گیا وقت کیسے واپس لاؤں - میں نے تو منافع والا سودا ہی نہیں کیا "
"میں تو یہی سمجھتا رہا , یہی میرا نصیب ہے - اور اسی پہ زندگی بھر قناعت کیے رہا - ارے بیٹا ! آج پتہ چلا نصیب کیسے بدلا جاتا ہے - خود بھی الله کے ہو جاؤ اور جو کچھ پاس ہے وہ بھی الله کی رضا پہ دے ڈالو - بس نصیب آپ کے ہاتھ میں - مانگتے جاؤ وہ دیتا جایگا "
" پریشان ہوں اتنی دیر کیوں ہو گئی "
یہ کہتے ہی بابا جی نے زار و قطار رونا شروع کر دیا
" کیا ہوا بابا جی "
میں نے از راہ ہمدردی پوچھا -
" نقصان ہو گیا بیٹا "
بابا جی کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹنے والی تھی - ایک کڑاہی , ایک چولہا , تھوڑا سا تیل اور تھوڑا سا پکوڑوں کا سامان - کیا نقصان ھوا ہو گا - مگر میں نے ضبط کرنا ہی مناسب جانا -
" پوری زندگی کی محنت بے سود ہو گئی بیٹا - نہ جیب بھری نہ جھولی - کام دھندھے کا گر ہی سمجھ نہیں آیا -
محنت محنت محنت , سب بے سود - کاروبار سمجھ بھی آیا تو اس عمر میں , جب زندگی کی ناؤ نے ہچکولے کھانے شروع کر دیے ہیں "
بابا جی کی باتیں اکثر میرے سر سے گزر جاتی ہیں - آج بھی ایسا ہی تھا-
"اتنا اچھا کاروبار تھا , ایک لگاؤ ستر کماؤ - یہاں بھی وہاں بھی - نقصان کا فکر نہ غم - یار کسی نے بتایا ہی نہیں - پکوڑے بنانے میں ہی عمر گزار دی میں نے "
" آج کون مسیحا آ گیا آپ کے پاس "
میں نے از راہ مذاق پوچھا -
" وہ سامنے دیکھ رہے ہو "
بابا جی نے سامنے بیٹھے خستہ حال فقیر کی طرف اشارہ کیا -
" ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ میرے پاس آیا - بھوکا تھا , میں نے اپنی روٹی دے دی - کہنے لگا - یار بانٹ کے کھانے میں برکت بھی ہے مزہ بھی - تھوڑی خود کھائی , تھوڑی مجھے دی , تھوڑی پرندوں کو ڈال دی - جاتے ہوۓ کہنے لگا - کاروبار کرو تو الله سے , اسکے نام پہ دو اور بے فکر ہو جاؤ - ستر گنا کا وعدہ ہے , بے شمار دینا اس کی شان ہے - دنیا چاہو دنیا لے لو , آخرت چاہو آخرت کا سودا کر لو "
جب سے میری سمجھ میں نہیں آ رہا , گیا وقت کیسے واپس لاؤں - میں نے تو منافع والا سودا ہی نہیں کیا "
"میں تو یہی سمجھتا رہا , یہی میرا نصیب ہے - اور اسی پہ زندگی بھر قناعت کیے رہا - ارے بیٹا ! آج پتہ چلا نصیب کیسے بدلا جاتا ہے - خود بھی الله کے ہو جاؤ اور جو کچھ پاس ہے وہ بھی الله کی رضا پہ دے ڈالو - بس نصیب آپ کے ہاتھ میں - مانگتے جاؤ وہ دیتا جایگا "
" پریشان ہوں اتنی دیر کیوں ہو گئی "
یہ کہتے ہی بابا جی نے زار و قطار رونا شروع کر دیا
Monday, 2 January 2017
Thursday, 29 December 2016
Subscribe to:
Posts (Atom)